پاکستان میں مصنوعی اعضاء اور آرتھوٹکس کے مریضوں کو درپیش مسائل

پاکستان میں آرتھوٹکس اور مصنوعی اعضاء پر انحصار کرنے والے مریضوں اور معذوروں کے لیے بحالی کا سفر کئی مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ اگرچہ اس شعبے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے، لیکن انتظامی مسائل اور پاکستانی زندگی کی پیچیدگیاں اس مسئلے کو مزید بگاڑ دیتی ہیں۔ مالی مشکلات سے لے کر تکنیکی کمزوریوں تک، یہ چیلنجز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملک معذور افراد کے لیے منصفانہ دیکھ بھال فراہم کرے۔

1پاکستان میں مصنوعی اعضاء اور آرتھوٹکس کی سہولیات تک رسائی انتہائی غیر مساوی ہے۔ بڑے شہروں جیسے کہ کراچی، لاہور، اور اسلام آباد میں یہ خدمات دستیاب ہیں، جبکہ دیہی علاقوں کی آبادی اکثر ان خدمات سے محروم ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے مریضوں کو طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ بنیادی خدمات حاصل کر سکیں، جس سے ان کی بحالی میں تاخیر ہوتی ہے اور ان پر مزید مالی بوجھ پڑتا ہے 

زیادہ لاگت، محدود سہولیات

مصنوعی اعضاء کی قیمت، خاص طور پر جدید آلات کے لیے، پاکستان کے زیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ ایک عام مصنوعی ٹانگ کی قیمت ایک لاکھ سے پانچ لاکھ پاکستانی روپے تک ہو سکتی ہے، جو غریب مریضوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان میں فلاحی پروگرامز یا صحت کی انشورنس بھی مناسب سطح پر دستیاب نہیں ہے، جس سے مصنوعی اعضاء حاصل کرنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے 

ٹیکنالوجی میں کمی

ترقی یافتہ ممالک میں مریض جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے ہیں جیسے کہ 3D پرنٹنگ مصنوعی اعضاء اور سمارٹ آرتھوٹکس۔ پاکستان میں، تاہم، ایسی جدید ٹیکنالوجیز دستیاب نہیں یا ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ آرتھوٹکس اور مصنوعی اعضاء کے شعبے میں زیادہ تر پرانے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جس سے مریضوں کو معیار کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے 

ناکافی سہولتیں

جب مریض مصنوعی اعضاء حاصل کر لیتے ہیں تو اکثر فالو اپ کیئر کا فقدان ہوتا ہے۔ بحالی کا عمل مصنوعی اعضاء کے استعمال کے لیے اہم ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں ان خدمات کی کمی ہے اور اکثر مریض آگاہی یا مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے ان خدمات سے محروم رہتے ہیں 

ذہنی صحت کے مسائل

علاوہ ازیں، پاکستانی مریضوں کو ذہنی صحت کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ جسمانی چوٹ کے بعد معذوری اور معاشرتی بدنامی کی وجہ سے مریض ڈپریشن اور خود اعتمادی میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ مصنوعی اعضاء کے ماہرین کے لیے بھی چیلنج ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف مریضوں کی جسمانی صحت کی بحالی کریں بلکہ ان کی ذہنی مدد بھی کریں 

حکومتی بے عملی

شاید سب سے بڑا مسئلہ حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ آرتھوٹکس اور مصنوعی اعضاء کے شعبے میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کرے۔ مالی معاونت، انشورنس اسکیمز، یا ایسی پالیسیاں جو معذوروں کی مدد کر سکیں، موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، مصنوعی آلات کے معیار کی نگرانی اور تربیتی پروگرامز کے فروغ کی ضرورت بھی ہے 

ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں معذور افراد کے لیے مالی معاونت، بہتر ریگولیٹری معیارات اور تکنیکی جدتوں کو اپنانا ہوگا تاکہ مریضوں کو بہتر خدمات فراہم کی جا سکیں۔ پاکستان کے معذور افراد کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!