دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک تقویمی یادگار نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ ہم رک کر اُن افراد کے بارے میں سوچیں جنہیں ہمارے معاشرے میں اپنی پہچان بنانے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ دن صرف تقریبات کا حصہ بن کر رہ گیا ہے یا واقعی اس کے ذریعے معذور افراد کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد معذوری کا شکار ہے، یعنی ہر ساتواں شخص کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی یا سماجی معذوری کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں، جہاں سہولیات کی پہلے ہی کمی ہے، معذور افراد کی زندگی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ نہ مناسب انفراسٹرکچر، نہ روزگار کے مواقع، اور نہ ہی معیاری صحت کی سہولیات ان کے لیے دستیاب ہیں۔
معاشرے میں معذور افراد کو اکثر بوجھ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان میں بے شمار صلاحیتیں ہوتی ہیں، جو صرف مناسب رہنمائی اور مواقع کی منتظر ہوتی ہیں۔ یہ افراد ہمارے معاشرے کا وہ روشن پہلو بن سکتے ہیں جو مشکلات کے باوجود ہار نہ ماننے کا سبق دیتے ہیں۔
معذور افراد کو درپیش چیلنجز
پاکستان میں معذور افراد کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے، جن میں سے چند اہم یہ ہیں:
تعلیمی مواقع کی کمی: معذور بچوں کے لیے معیاری اور خصوصی تعلیمی ادارے بہت کم ہیں۔ وہ عام اسکولوں میں داخلے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ اکثر اسکول ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
روزگار کی مشکلات: معذور افراد کے لیے مخصوص 2 فیصد ملازمت کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر انہیں اپنے حق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔
سماجی قبولیت کا فقدان: معذور افراد کو معاشرتی سطح پر برابر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اکثر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اور انہیں معاشرے کا فعال رکن بننے سے روکا جاتا ہے۔
قابل رسائی ماحول کا فقدان: معذور افراد کے لیے سڑکوں، عمارتوں، دفاتر، اور پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ان بنیادی سہولیات کے بغیر ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔
کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟
یہ سوال ہر اس شخص سے ہے جو خود کو ایک ذمہ دار شہری سمجھتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی معذور افراد کی مدد کے لیے کچھ کیا؟ اگر نہیں، تو ہمیں اب سوچنا ہوگا۔ ان کی زندگی بہتر بنانے کے لیے ہم درج ذیل اقدامات کر سکتے ہیں:
معذور افراد کے لیے تعلیمی ادارے: حکومت اور نجی اداروں کو ایسے اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے جہاں معذور بچوں کو ان کی ضروریات کے مطابق تعلیم دی جائے۔
انفراسٹرکچر میں بہتری: معذور افراد کے لیے پبلک مقامات اور ٹرانسپورٹ کو قابل رسائی (disabled-friendly)
بنایا جائے۔
روزگار کے مواقع فراہم کرنا: ملازمت کے کوٹے پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، اور معذور افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔
سماجی شعور پیدا کرنا: میڈیا، اسکولوں، اور سماجی تنظیموں کے ذریعے عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تاکہ معذور افراد کو عزت اور برابری کا درجہ دیا جا سکے۔
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ معذور افراد کو ان کی مشکلات کے ساتھ چھوڑ دینا کافی ہے، لیکن کیا یہ انسانی ہمدردی کے خلاف نہیں؟ کیا کبھی کسی ویل چیئر پر بیٹھے بچے کی معصومیت کو محسوس کیا ہے، جو اسکول جانے کے لیے ترستا ہے؟ یا کسی نابینا شخص کی جدوجہد دیکھی ہے، جو محض ایک گزرگاہ پر اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
یہ وقت ہے کہ ہم خود کو تبدیل کریں۔ ہم ان لوگوں کے لیے صرف ہمدردی نہ رکھیں بلکہ انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ہمیں ان کی مشکلات کو سمجھنا اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
معذور افراد کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کی عزت کرنا، ان کی مدد کرنا، اور انہیں برابر کا شہری بنانا نہ صرف ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہماری اخلاقی فتح بھی۔ آئیے، اس دن کو صرف رسمی طور پر نہ منائیں، بلکہ ان افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یہ ہمارا فرض ہے، اور شاید ہمارا قرض بھی۔