ہم صرف عطیات کے ذریعے آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کے کام کو کیوں ممکن سمجھتے ہیں؟

آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کا شعبہ اکثر خیراتی کاموں پر منحصر تصور کیا جاتا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں صحت کا نظام محدود ہے۔ یہ تصور، حالانکہ قابلِ فہم ہے کیونکہ ان کی تیاری مہنگی ہوتی ہے اور مریضوں کو انفرادی طور پر تیار کردہ آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا فراہم کرنے میں معاشرتی اور معاشی چیلنجز درپیش ہوتے ہیں،

يهاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: كہ کیوں اس اہم شعبہ کو ہمیشہ خیرات يا فلاحى کام کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ اسے ہر ملک کے طبی نظام کا لازمی حصہ ہونا چاہیے؟

یقیناً، آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کی تیاری مہنگی ہے۔ جنهيں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے، اور جس کے لیے مخصوص مواد، ماہرین کی مہارت، اور وقتاً فوقتاً ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے ممالک میں ان اخراجات کو غير سرکاری تنظیمیں ، بین الاقوامی عطیات، یا مقامی خیراتی ادارے برداشت کرتے ہیں۔

اس کا نتیجہ کیا ہے؟ ایک غیر مستحکم نظام جس میں صرف کچھ ہی مریضوں کو وقت پر علاج ملتا ہے۔

یہ خیراتی بنیاد پر مبنی طریقہ، اگرچہ قابلِ تعریف ہے، طویل مدتی مسئلے کا عارضی حل ہے۔ اس سے حکومتوں کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے، اور جو سروس ایک بنیادی صحت کی سہولت ہونی چاہیے، اسے خیراتی اداروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف خیرات پر انحصار کرنے سے بہت سے مریض بروقت علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، جس سے ان کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

صحت کے نظام کا لازمی حصہ بنائيں، اضافی خدمت نہیں

آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا محض چلنے پھرنے کے آلات نہیں ہیں؛ یہ زندگی کو تبدیل کرنے والے طبی آلات ہیں۔ بہت سے مریضوں کے لیے مصنوعی اعضا یا آرتھوٹكس کا دستیاب ہونا ان کی آزادی، روزگار اور معاشرت میں حصہ لینے کا ضامن ہوتا ہے۔ جب ہم اس شعبے کو صرف خیراتی کام کے طور پر لیتے ہیں اور اسے صحت کی لازمی سروس کے طور پر نہیں دیکھتے، تو ہم مریضوں کی عزتِ نفس کو کم کر دیتے ہیں۔

صحت کے نظاموں کو آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کو بحالی صحت کے لازمی اجزاء کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ ان خدمات کو خیراتی تنظیموں کے ذمہ چھوڑنے کے بجائے، حکومتوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ عوامی صحت کے بیمہ اسکیموں کا حصہ ہوں۔ جن مریضوں کو ان آلات کی ضرورت ہے، انہیں حکومت کی مدد سے ان تک رسائی حاصل ہونی چاہیے، جیسے وہ کسی دوسرے طبی علاج کے لیے کرتے ہیں۔

“صرف خیرات” کا غلط تاثر

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ کم آمدنی والے ممالک میں آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کے لیے عوامی فنڈنگ غیر حقیقی ہے۔ تاہم، یہ دلیل اس بات کو نظرانداز کرتی ہے کہ حفاظتی صحت کی دیکھ بھال کتنی اہم ہے۔ ایک موزوں مصنوعی عضو یا آرتھوٹكس کا استعمال مریض کی نقل و حرکت کو بہتر بنا سکتا ہے اور گرنے، دباؤ کے زخموں اور جوڑوں کے نقصان جیسے مسائل سے بچا سکتا ہے، جس سے طویل مدتی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔

مزید برآں، خیرات پر انحصار ایک ایسا بیانیہ قائم کرتا ہے جس میں جسمانی معذوری کے شکار افراد کو صحت کی عام سہولیات کے دائرے سے باہر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ نقصان دہ ہے اور معاشرے میں معذوری کو نظرانداز کرنے کا عکاس ہے، حالانکہ معذوری بھی انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے اور اسے مساوی توجہ اور وسائل کی ضرورت ہے۔

ایک اہم رکاوٹ بہت سے علاقوں میں ماہرین کی کمی ہے۔ تربیت یافتہ آرتھوٹسٹس اور پروسٹھٹسٹس کی تعداد ناکافی ہے، جس کی وجہ سے یہ پیشہ بہت سے ممالک میں کم ترقی یافتہ رہ گیا ہے۔ خیراتی تنظیمیں اکثر اس خلا کو پورا کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو تربیت دیتی ہیں، لیکن یہ پروگرام مناسب حکومتی شمولیت کے بغیر پائیدار نہیں ہوتے۔

ممالک کو اس شعبے میں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کی صنعت خود کفیل ہو سکے۔ یہ نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ غیر ملکی امداد اور عطیات پر انحصار بھی کم کرے گا۔

آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کے شعبے کو صحت کے نظام کے کنارے پر نہیں رہنا چاہیے، جہاں صرف وہی مریض فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں عطیات کی بدولت علاج ملتا ہے۔ حکومتوں کو، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، اس صنعت کی مزید فعال حمایت کرنی چاہیے، چاہے وہ سبسڈی، بیمہ کوریج، یا عوامی صحت کے منصوبوں کے ذریعے ہو۔

آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کو قومی صحت کے نظام میں شامل کرنا صحت کی مساوات کی سمت ایک اہم قدم ہوگا۔ مریضوں کو ان آلات تک رسائی کے لیے دوسروں کے خیرات پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہم خیراتی ذہنیت سے آگے بڑھیں اور آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کو صحت کی بنیادی، لازمی سروس کے طور پر تسلیم کریں۔

جبکہ خیرات عالمی صحت کی کوششوں کا ایک اہم حصہ بنی ہوئی ہے، آرتھوٹكس اور مصنوعی اعضا کو ایک اہم صحت کی سہولت کے طور پر مکمل حکومتی حمایت ملنی چاہیے۔ جب تک ان آلات کو ضروری طبی علاج کے طور پر نہیں لیا جاتا، بے شمار افراد صحت کے نظام کے خلا میں گر کر ان تبدیلی لانے والے علاج سے محروم رہیں گے۔ یہ صرف ایک صحت کا مسئلہ نہیں ہے؛ یہ معاشرتی انصاف کا مسئلہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!