بچوں میں کلب فٹ اور اس کا آرتھوٹک علاج: ایک جامع جائزہ

Urdu ArticlesMarch 23, 2025

تصور کریں کہ آپ کا چھوٹا بچہ اپنے پہلے قدم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس کے پاؤں کی ساخت اسے روک رہی ہے۔ وہ کھیلنے، دوڑنے یا اپنے دوستوں کے ساتھ چھلانگیں لگانے کے بجائے پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ صورتحال بہت سے والدین کے لیے ایک حقیقت ہے جن کے بچوں کو “کلب فٹ” (Club Foot) نامی حالت کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی پیدائشی حالت ہے جو ہر 1,000 میں سے ایک بچے کو متاثر کرتی ہے، اور پاکستان جیسے ملک میں، جہاں صحت کی سہولیات تک رسائی ہر جگہ یکساں نہیں، اس کا بروقت علاج نہایت اہم ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی ایک ناقابلِ علاج مسئلہ ہے؟ یا جدید آرتھوٹک طریقوں سے ہم اپنے بچوں کو ایک بہتر زندگی دے سکتے ہیں؟ آئیے اس موضوع پر بات کرتے ہیں، حقائق جانتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔

 کلب فٹ کیا ہے؟ 

کلب فٹ، جسے طبی زبان میں “” Congenital Talipes Equinovarus یا CTEV کہا جاتا ہے، ایک پیدائشی خرابی ہے جس میں بچے کا ایک یا دونوں پاؤں اندر کی طرف مڑے ہوتے ہیں، اور ایڑی نیچے کی طرف جھکی ہوتی ہے۔ یہ حالت بچے کے رحم میں نشوونما کے دوران دوسرے سہ ماہی میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو بچہ اپنے پاؤں کے کناروں یا ٹخنوں پر چلنے پر مجبور ہو سکتا ہے، جو نہ صرف تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ اس کی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے مطابق، ہر 1,000 میں سے ایک بچہ اس حالت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، اور تقریباً نصف کیسز میں دونوں پاؤں متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ شرح کم و بیش یہی ہے، لیکن اعداد و شمار کا فقدان اور شعور کی کمی اسے ایک چیلنج بنا دیتی ہے۔ یہ کوئی نایاب بیماری نہیں، اور اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا علاج ممکن ہے—خاص طور پر اگر ابتدائی عمر میں ہی توجہ دی جائے۔

 تاریخی پس منظر

کیا آپ جانتے ہیں کہ کلب فٹ کے آثار قدیم مصری مقبروں میں بھی ملے ہیں؟ بارہویں صدی قبل مسیح میں مصری فرعون سپتاہ کے بائیں پاؤں میں یہ حالت تھی۔ اس وقت علاج کے طریقے سادہ تھے—ہاتھوں سے پاؤں کو درست کرنے کی کوشش اور پٹی باندھنا۔ یونانی طبیب ہپوکریٹس نے 400 قبل مسیح میں لکھا کہ اس حالت کا علاج جلد سے جلد شروع کرنا چاہیے۔ آج، ہزاروں سال بعد، ہمارے پاس جدید طریقے ہیں، لیکن بنیادی اصول وہی ہے: بروقت علاج کا شروع کرنا

 کلب فٹ کیوں ہوتا ہے؟ سائنس کیا کہتی ہے

سائنسدان اب تک اس کی صحیح وجہ نہیں جان سکے، لیکن خیال ہے کہ جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر خاندان میں پہلے کوئی اس حالت سے متاثر ہوا ہو تو اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک والدین کو کلب فٹ ہو تو بچے میں اس کے امکانات 30 میں سے 1 ہوتے ہیں، اور اگر دونوں والدین متاثر ہوں تو یہ شرح 3 میں سے 1 تک پہنچ جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ حالت سنگین بیماریوں جیسے کہ اسپائنا بیفائیڈا سے بھی منسلک ہو سکتی ہے، لیکن زیادہ تر بچوں میں یہ اکیلی حالت ہوتی ہے اور وہ صحت مند ہوتے ہیں۔

 آرتھوٹک علاج: جدید سائنس کا تحفہ

اب سوال یہ ہے کہ کلب فٹ کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟ آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ “پونسیٹی میتھڈ” ہے، جو ڈاکٹر ایگناسیو پونسیٹی نے 50 سال پہلے تیار کیا تھا۔ یہ ایک غیر جراحی طریقہ ہے جو کئی مراحل پر مشتمل ہے:

1. پلاسٹر: بچے کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد، ماہر ڈاکٹر پاؤں کو آہستہ آہستہ درست پوزیشن میں لاتا ہے اور پلاسٹر لگاتا ہے۔ ہر ہفتے پلاسٹر تبدیل کیا جاتا ہے، اور عام طور پر 5 سے 8 ہفتوں میں پاؤں بہتر ہوجاتا ہے۔

2. ایک ہلکی سی سرجری: آخری پلاسٹر سے پہلے، زیادہ تر بچوں کو ایڑی کے پچھلے حصے کے ٹینڈن (Achilles Tendon) کو ڈھیلا کرنے کے لیے ایک چھوٹی سرجری کی ضرورت ہوتی ہےجس کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوتی

3.  بریسز کا استعمال:  پلاسٹر ہٹنے کے بعد، بچے کو خاص طبی ہدایات کے ساتھ “فٹ ابڈکشن بریس” پہنائی جاتی ہے۔ پہلے تین مہینوں تک یہ 23 گھنٹے روزانہ پہننا ہوتا ہے، پھر صرف رات کے وقت 4 سے 5 سال تک۔ یہ ایک خاص قسم کا سپلنٹ ہوتا ہے جو پاوں کو ایک خاص زاویے اور پوزیشن میں رکھتا ہے اس کے لیے اسے درمیان سے ایک بار کے زریعے جوڑا جاتا ہے ۔ 

یہ طریقہ 90 فیصد سے زیادہ کیسز میں کامیاب ہوتا ہے، اور بچے عام طور پر چلنا سیکھتے ہیں اور کھیل کود میں حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک اہم بات ہے: علاج کی کامیابی والدین کی وابستگی پر منحصر ہے۔ اگر بریس کا استعمال نظر انداز کیا جائے تو حالت دوبارہ لوٹ سکتی ہے۔

صائمہ، ایک پانچ سالہ بچی جو لاہور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہے، کلب فٹ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والدین نے سوچا کہ یہ شاید کوئی مستقل معذوری ہے۔ لیکن ایک مقامی این جی او کی مدد سے انہوں نے پونسیٹی میتھڈ شروع کیا۔ آج، صائمہ اپنے دوستوں کے ساتھ دوڑتی ہے اور اس کے والدین کا کہنا ہے کہ بریس پہننا شروع میں مشکل تھا، لیکن اب وہ اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ علاج مشکل ہو سکتا ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

 چیلنجز اور تنقیدی جائزہ

اگرچہ پونسیٹی میتھڈ بہت مؤثر ہے، لیکن اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بریس کو صحیح طریقے اور مسلسل پہننا ہے۔دوسرا بڑا مسئلہ صحیح ڈیزاین والی بریسز کے ملنے کا بھی ہوتا ہے  ایک تحقیق کے مطابق، جن خاندانوں میں تین یا زیادہ بچے ہوتے ہیں، وہاں بریس کے استعمال میں 66.7 فیصد کمی دیکھی گئی۔ بچوں کا رونا اور والدین کا تھک جانا اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں دیہی علاقوں میں ماہرین تک رسائی محدود ہے، یہ اور بھی بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

اس کے علاوہ، نئے بریس ڈیزائن جیسے “کننگھم بریس” یا “مچل بریس” زیادہ آرام دہ ہیں، لیکن یہ مہنگے ہیں اور ہر جگہ دستیاب نہیں۔ کیا ہمیں سستے لیکن سخت “بوٹس اینڈ بار” پر انحصار کرنا چاہیے، یا نئے اختیارات کے لیے سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے؟ یہ ایک سوال ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

 ہم کیا کر سکتے ہیں؟

– والدین کو اس حالت اور اس کے علاج کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ حمل کے دوران الٹراساؤنڈ سے کلب فٹ کی تشخیص ہو سکتی ہے، جو والدین کو تیاری کا موقع دیتی ہے۔

–  حکومت اور این جی اوز کو دیہی علاقوں میں آرتھوٹک سہولیات بڑھانی چاہئیں۔

–  بریس پہننے کے دوران بچوں کے آرام کے لیے نئے ڈیزائن اور والدین کی تربیت اہم ہے۔

–  پاکستان میں کلب فٹ کے اعداد و شمار اور علاج کے نتائج پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آبادی کے لیے بہترین حل تلاش کر سکیں۔

ایک قدم آگے بڑھائیں

کلب فٹ کوئی لاعلاج مرض نہیں۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جسے ہم سمجھ سکتے ہیں، اس کا علاج کر سکتے ہیں، اور اپنے بچوں کو وہ زندگی دے سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ لیکن اس کے لیے علم، عمل، اور عزم کی ضرورت ہے۔ آج ہمارا ایک چھوٹا سا قدم—چاہے وہ ڈاکٹر سے مشورہ لینا ہو یا دوسروں کو آگاہ کرنا—کل کو بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ تو آئیے، اس بارے میں بات کریں، سوچیں، اور عمل کریں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہم مل کر اس چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں؟

Leave a reply

Join Us
  • Facebook38.5K
  • X Network32.1K
  • Instagram18.9K

Stay Informed With the Latest & Most Important News

Advertisement

Follow
Sidebar Search
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...