زندگی کے کچھ لمحے ہمیں ہنساتے ہیں، کچھ رلاتے ہیں، اور کچھ ہمیں ہمیشہ کے لیے بدل دیتے ہیں۔ اوسکر لیونارڈ کارل پسٹوریس کی کہانی بھی ایسی ہی ہے—ایک لڑکے کی جو 22 نومبر 1986 کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے سینڈٹن علاقے میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ، ہینکی اور شیلا، نے اسےبڑے پیار سے پالا۔ اوسکر کے بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کے ساتھ وہ بچپن کے دن خوشیوں سے بھرے تھے۔ لیکن جب وہ صرف 11 ماہ کا تھا، اس کی زندگی ایک انوکھے موڑ پر آ گئی۔ وہ فائبولر ہیمیمیلیا کے ساتھ پیدا ہوا تھا—اس کے دونوں پاؤں کی نچلی ہڈیاں غائب تھیں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ کبھی چل نہیں سکے گا۔ اس کی ماں شیلا نے اپنے ننھے بیٹے کو دیکھا، ۔ لیکن آنسو نہیں بہائے، بلکہ ایک امید باندھی۔
جب وہ صرف 11 ماہ کا تھا، ماں باپ نے ایک مشکل فیصلہ کیا—اس کے پاؤں گھٹنوں سے نیچے کاٹ دیے گئے۔ ۔ چھ ماہ بعد، جب اس نے پہلی بار مصنوعی ٹانگیں پہنیں، وہ گرا، لیکن اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو اس کی ماں کو پسند تھی۔ وہ اٹھا، دو قدم چلا، اور پھر گرا۔ اس کی چھوٹی بہن ہنستی اور کہتی، “اوسکر، تم تو پرندے کی طرح اڑنا چاہتے ہو!” اور واقعی، اوسکر اڑنا چاہتا تھا۔”
اوسکر کی ماں اس کی سب سے بڑی ہمت تھی۔ وہ اسے کہانیاں سناتی، اس کے ساتھ کھیلتی، اور کہتی، “تم جو چاہو، وہ کر سکتے ہو۔” جب اوسکر 15 سال کا تھا، شیلا 43 سال کی عمر میں وفات پا گئی۔ اس کا دل ٹوٹ گیا، لیکن ماں کی باتیں اس کے کانوں میں گونجتی رہیں۔
اس نے کنسٹینشیا کلوف پرائمری اسکول اور پھر پریٹوریا بوائز ہائی اسکول میں پڑھائی کی۔اپنے مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ وہ رگبی کھیلتا، واٹر پولو اور ٹینس میں حصہ لیتا، اور اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستا کھیلتا۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی ان تمام ایکٹیویٹیز اور مصنوعی ٹانگوں کے پیچھے کتنی محنت چھپی ہے۔ جب وہ جینی بروکس کے چھوٹے سے جم میں مشقیں کرتا، تو چھ ماہ تک جینی کو پتا ہی نہیں چلا کہ اوسکر کے پاؤں نہیں ہیں۔ “وہ باکسنگ کرتا، رسی کودتا، اور پش اپس لگاتا،” جینی حیرانی سے دیکھتا تو اوسکر کہتا، “میں اپنی کمزوری سے معذور نہیں، اپنی طاقت سے قابل ہوں۔”
2003 میں رگبی کے ایک میچ میں اس کا گھٹنا زخمی ہو گیا۔ وہ درد سے کراہتا، لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ جنوری 2004 میں، جب وہ پریٹوریا یونیورسٹی کے ہائی پرفارمنس سینٹر میں بحالی کے لیے گیا، اس کے کوچ امپی لو نے اسے دوڑنے کی ترغیب دی۔ “بس ایک بار کوشش کرو،” امپی نے کہا
لیکن سادہ اور عام مصنوعی ٹانگوں سے بھاگنا ممکن نہ تھا ۔ اس کےلیے خاص ڈیزان کی ضرورت تھی۔ اور اس میں اس کی مدد کی جنوبی افریقہ کے فرانسوا وین ڈر واٹ جس نے ریسنگ بلیڈز نامی ڈیزائن بنا کے دیا۔ لیکن یہ بلیڈز جلد ٹوٹ گئے۔ پھر اس کی ملاقات امریکی ایتھلیٹ برائن فریژر سے ہوئی، جس نے اسے آئس لینڈ کی کمپنی Össur کے بنائے کاربن فائبر بلیڈز دیے۔ جب اوسکر نے ان کے ساتھ دوڑ لگائی، ہوا میں چھن چھن کی آواز گونجی، اور اس کے دل نے کہا، “یہ میری زندگی ہے۔ اس نیے ڈیزاین نے اسے اس کے خوابوں کی تعبیر کے اور نزدیک کر دیا”
وہ “بلیڈ رنر” بن گیا۔ 2008 کے بیجنگ پیرالمپکس میں اس نے 100، 200، اور 400 میٹر دوڑ میں سونے کے تمغے جیتے۔ 100 میٹر میں جب وہ امریکی ایتھلیٹ جیروم سنگلٹن سے چند لمحوں کے فرق سے جیتا، اس کے چہرے پر ماں کی مسکراہٹ جھلک رہی تھی۔ “یہ میری زندگی کا سب سے بڑا لمحہ ہے،” اس نے کہا، جب اس نے 400 میٹر میں عالمی ریکارڈ بنایا۔ لیکن اس کا خواب بڑا تھا—
اوسکر کے لیے یہ ٹانگیں صرف اعضا نہیں تھے—یہ اس کے خوابوں کے پر تھے۔ جب وہ دوڑتا، اس کا چہرہ چمکتا، جیسے وہ کہہ رہا ہو، “دیکھو، میں آزاد ہوں!” اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف معذور کھلاڑیوں کے ساتھ نہیں، بلکہ دنیا کے بہترین ایتھلیٹس کے ساتھ دوڑے گا۔ لیکن یہ خواب آسان نہیں تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا، “اس کی ٹانگیں اسے زیادہ طاقت دیتی ہیں، یہ دھوکہ ہے۔”
پھر اس پر پابندی لگ گئی۔ اوسکر کے دل پر بوجھ پڑا، لیکن وہ چپ نہیں بیٹھا۔ اس نے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر ثابت کیا کہ اس کی کامیابی اس کی محنت کا نتیجہ ہے، نہ کہ ان ٹانگوں کا کوئی جادو۔ آخر کار اسے اجازت مل گئی، اور وہ دوبارہ ٹریک پر اترا۔
2011 میں، اس نے اپنا خواب پورا کیا۔ اٹلی کے لیگنانو میں، اس نے 45.07 سیکنڈ میں 400 میٹر دوڑ کر اولمپکس میں شرکت کاَ معیار حاصل کیا۔ جب وہ 2012 کے لندن اولمپکس میں ٹریک پر اترا، اس کی مصنوعی ٹانگیں چمک رہی تھیں، اور اس کا دل ماں کو یاد کر رہا تھا۔ وہ پہلا دوہرا معذور ایتھلیٹ تھا جو اولمپکس میں دوڑا۔ اس کی بہن اسے اسٹیڈیم سے دیکھ رہی تھی، اور اس کے آنسو رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔
لیکن زندگی ہمیشہ خوشیوں کا سفر نہیں ہوتی۔ 14 فروری 2013 کی صبح، اوسکر کی زندگی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ اس نے اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کو گولی مار دی، اور کہا کہ اسے لگا کوئی چور گھر میں گھس آیا ہے۔ اس کا دل کانپ رہا تھا جب وہ عدالت میں کھڑا ہوا۔ 2014 میں، اسے قتلِ غیرعمد کا مجرم قرار دیا گیا، اور اسے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
آج اوسکر کی مصنوعی ٹانگیں خاموش ہیں، لیکن ان کی کہانی اب بھی گونجتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی میں گرنا کوئی شرم کی بات نہیں—اٹھنا ضروری ہے۔ اس کی ماں کی آواز شاید اب بھی اس کے کانوں میں گونجتی ہو، “تم جو چاہو، وہ کر سکتے ہو۔” اوسکر کی دوڑ ختم ہوئی، لیکن اس کا سبق ہم سب کے لیے ہے—اپنے دل کی سنو، اور اپنے خوابوں کے پیچھے دوڑو، چاہے تمہارے پاؤں مصنوعی ہی کیوں نہ ہوں۔