انسان بمقابلہ روبوٹس: بیجنگ کی دوڑ میں کون جیتا؟

19 اپریل 2025 کو، جب سورج نے آسمان پر اپنی کرنیں بکھیریں،بیجنگ میں ایک ایسی دوڑ شروع ہوئی جو تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ یہ کوئی عام میراتھن نہیں تھی، بلکہ دنیا کی پہلی “ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن” تھی، جہاں 12,000 انسانی دوڑنے والوں کے ساتھ 21 دھاتی “دوڑنے والوں” نے بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ یہ منظر کسی سائنس فکشن فلم سے کم نہ تھا، جہاں انسان اور مشین ایک ہی ٹریک پر مقابلہ کر رہے تھے، لیکن کہانی اتنی سادہ نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔

بیجنگ کے یزہوانگ ضلع میں، جہاں ٹیک کمپنیوں کی چمکتی عمارتیں آسمان کو چھوتی ہیں، یہ دوڑ منعقد ہوئی۔ ان روبوٹس کو چین کی بہترین یونیورسٹیوں اور کمپنیوں نے تیار کیا تھا، اور ہر ایک اپنے ڈیزائن میں منفرد تھا۔ کوئی چار فٹ لمبا تھا تو کوئی چھ فٹ، کچھ کے سر انسانی چہروں جیسے تھے، جبکہ کچھ دھاتی چمک کے ساتھ روایتی روبوٹک انداز میں بنے تھے۔ سب سے نمایاں تھا “تیانگونگ الٹرا”، جو بیجنگ ہیومنائیڈ روبوٹ انوویشن سینٹر کا شاہکار تھا۔ اس کی لمبی ٹانگیں اور انسانی دوڑ کی نقل کرنے والا الگورتھم اسے سب سے مضبوط امیدوار بناتا تھا۔

دوڑ شروع ہوئی، اور ایک لمحے کے لیے لگا کہ یہ روبوٹس واقعی انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن پھر حقیقت سامنے آئی۔ ایک روبوٹ شروعاتی لائن پر ہی گر پڑا، دوسرا چند میٹر دوڑ کر ریلنگ سے ٹکرایا، اور اس کے ساتھ اس کا انسانی آپریٹر بھی زمین پر جا پڑا۔ کچھ روبوٹس کو رسی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا، جیسے کوئی پتنگ اڑائی جاتی ہو۔ تماشائیوں کی ہنسی اور حیرت کے ملے جلے جذبات فضا میں گونج رہے تھے۔ کچھ دوڑنے والوں نے تو روبوٹس کے ساتھ سیلفیاں لینے کے لیے دوڑ روک دی

تیانگونگ الٹرا نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دو گھنٹے 40 منٹ میں 21 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، جو کہ انسانی فاتح کے ایک گھنٹے دو منٹ کے مقابلے میں کافی سست تھا۔ لیکن یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ اس روبوٹ کو تین بار بیٹری تبدیل کرنی پڑی، جیسے کوئی دوڑنے والا پانی کے اسٹیشن پر رکتا ہے۔ دوسری طرف، 21 میں سے صرف چھ روبوٹس ہی فنش لائن تک پہنچ پائے۔ باقی گرتے پڑتے، گرم ہوتے یا بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی رہ گئے۔

یہ دوڑ صرف ایک مقابلہ نہیں تھی، بلکہ چین کی روبوٹک ٹیکنالوجی کی طاقت کا مظاہرہ تھی۔ چینی حکومت نے ہیومنائیڈ روبوٹس کو معاشی ترقی کا اگلا بڑا قدم قرار دیا ہے۔ فیکٹریوں سے لے کر بزرگ کی دیکھ بھال تک، یہ روبوٹس مستقبل میں ہر جگہ نظر آ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوڑ نے یہ بھی واضح کیا کہ ابھی انسانوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ جیسا کہ ایک امریکی پروفیسر ایلن فرن نے کہا، “یہ زیادہ تر ہارڈویئر کی پائیداری کا مظاہرہ تھا، نہ کہ مصنوعی ذہانت کا۔”

پھر بھی، یہ لمحہ تاریخی تھا۔ ہزاروں تماشائیوں نے روبوٹس کی ہمت کو سراہا، اور سوشل میڈیا پر ان کے گرنے، اٹھنے اور دوڑنے کے ویڈیوز وائرل ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا، کچھ نے اسے مستقبل کی جھلک کہا۔ ایک ایکس پوسٹ پر تبصرہ تھا، “یہ روبوٹس ابھی تو گر رہے ہیں، لیکن کل یہ ہمارے میراتھن میڈلز چھین لیں گے!”

تو یہ تھی اس انوکھی دوڑ کی کہانی، جہاں دھات اور گوشت ایک دوسرے کے ساتھ دوڑے، اور انسانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ابھی تک سب سے تیز ہیں۔ لیکن کون جانتا ہے، شاید اگلی بار یہ روبوٹس ہمیں حیران کر دیں۔ تب تک، بیجنگ کی اس دوڑ کو ایک ایسی یادگار کے طور پر دیکھا جائے گا جس نے سائنس اور کھیل کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔

 

Leave a reply

Join Us
  • Facebook38.5K
  • X Network32.1K
  • Instagram18.9K

Stay Informed With the Latest & Most Important News

Advertisement

Follow
Sidebar Search
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...

error: Content is protected !!